ہر سانس کو مہکائیے اب دیر نہ کیجے
اک پھول سا کھل جائیے اب دیر نہ کیجے
اک جام محبت سے مسرت سے بھرا جام
چھلکائیے چھلکائیے اب دیر نہ کیجے
سچ کہتا ہوں اک عمر سے پیاسی ہے یہ محفل
پیمانہ بکف آئیے اب دیر نہ کیجے
ساون کی گھٹا بن کے سلگتی ہوئی رت میں
دنیا پہ برس جائیے اب دیر نہ کیجے
زنجیر میں جکڑے ہوئے دیوانوں کو اپنے
سولی سے اتروائیے اب دیر نہ کیجے
سناٹا ہر اک روح کو اب ڈسنے لگا ہے
اک گیت کوئی گائیے اب دیر نہ کیجے
اس عہد شرر بار پہ پھر امن کی شبنم
برسائیے برسائیے اب دیر نہ کیجے
تلواروں نے چمکایا ہے مقتل کی زمیں کو
تلواروں کو دفنائیے اب دیر نہ کیجے
اک اور حسیں خواب کہ مٹ جائے شب غم
دوراںؔ کو بھی دکھلائیے اب دیر نہ کیجے
غزل
ہر سانس کو مہکائیے اب دیر نہ کیجے
اویس احمد دوراں