ہر نفس اک مستقل فریاد ہے
کتنی پر غم عشق کی روداد ہے
گھٹ رہی ہیں میرے دل کی قوتیں
اب یہ شاید آخری فریاد ہے
ہو گئی شاید کہ اب تکمیل عشق
ورنہ کیوں شور مبارک باد ہے
جسم پابند تعین ہو تو ہو
روح تو ہر قید سے آزاد ہے
پھر کہاں گلشن میں وہ آسودگی
آشیاں جب وقف برق و باد ہے
دیکھیے انجام کار کائنات
دل مرا پھر مائل فریاد ہے
جس میں ثاقبؔ تھا وہ مجھ سے ہمکنار
مجھ کو وہ منظر ابھی تک یاد ہے
غزل
ہر نفس اک مستقل فریاد ہے
ثاقب کانپوری