ہر کسی آنکھ کا بدلہ ہوا منظر ہوگا
شہر در شہر مسیحاؤں کا لشکر ہوگا
آئنہ رو ہے اگر دل تو حفاظت کیجے
کس کو معلوم ہے کس ہاتھ میں پتھر ہوگا
لے کے پیغام خزاں آیا ہے میرے در پہ
وہ جو کہتا تھا کہ آنگن میں صنوبر ہوگا
پھر سیاست کی مہک آنے لگی ہے مجھ کو
جانے اب کون مرے شہر میں بے گھر ہوگا
چھو کے دیکھو تو سہی اس میں نمی باقی ہے
یہ جو صحرا ہے کسی وقت سمندر ہوگا
غزل
ہر کسی آنکھ کا بدلہ ہوا منظر ہوگا
سائل عمران