ہر خار عنایت تھا ہر اک سنگ صلہ تھا
اس راہ میں ہر زخم ہمیں راہنما تھا
کیوں گھر کے اب آئے ہیں یہ بادل یہ گھٹائیں
ہم نے تو تجھے دیر ہوئی یاد کیا تھا
اے شیشہ گرو کچھ تو کرو آئنہ خانہ
رنگوں سے خفا رخ سے جدا یوں نہ ہوا تھا
ان آنکھوں سے کیوں صبح کا سورج ہے گریزاں
جن آنکھوں نے راتوں میں ستاروں کو چنا تھا
غزل
ہر خار عنایت تھا ہر اک سنگ صلہ تھا
زہرا نگاہ