ہر اک داغ دل شمع ساں دیکھتا ہوں
تری انجمن ضو فشاں دیکھتا ہوں
تعین سے آزاد ہیں میرے سجدے
جبیں پر ترا آستاں دیکھتا ہوں
فریب تصور ہے قید قفس ہے
ہر اک شاخ پر آشیاں دیکھتا ہوں
میں راہ طلب کا ہوں پسماندہ رہرو
غبار رہ کارواں دیکھتا ہوں
باندازۂ ذوق ایذا پسندی
اسے آج میں مہرباں دیکھتا ہوں
پلا کر مجھے محرم ہوش رکھا
یہ اعجاز پیر مغاں دیکھتا ہوں
مری زندگی محرم غم ہے تابشؔ
نفس کو بہ رنگ فغاں دیکھتا ہوں
غزل
ہر اک داغ دل شمع ساں دیکھتا ہوں
تابش دہلوی