ہر اک چھوٹی سے چھوٹی بات پر ناداں نکلتی ہے
کہیں تم کھو نہ جاؤ سوچ کر ہی جاں نکلتی ہے
نہ جانے کیسے کیسے درد سینے میں سلگتے ہیں
نہ جانے کیسی کیسی سانس کچھ حیراں نکلتی ہے
کتابت سے نہ جو سیکھا وہ دنیا نے سکھایا ہے
خوشی کتنی بجا ہو درد سے پنہاں نکلتی ہے
عجب ہے زندگی مشکل ہوئی آسان سمجھے تھے
جہاں سمجھا کیے مشکل وہیں آساں نکلتی ہے
وہی جاں تو نکالے گی یہاں پر ہو وہاں پر ہو
جو اب تک یاں نکلتی تھی وہی اب واں نکلتی ہے

غزل
ہر اک چھوٹی سے چھوٹی بات پر ناداں نکلتی ہے
رجنیش سچن