ہر حقیقت کو بانداز تماشا دیکھا
خوب دیکھا ترے جلووں کو مگر کیا دیکھا
جستجو میں تری یہ حاصل سودا دیکھا
ایک اک ذرہ کا آغوش طلب وا دیکھا
آئینہ خانۂ عالم میں کہیں کیا دیکھا
تیرے دھوکے میں خود اپنا ہی تماشا دیکھا
ہم نے ایسا نہ کوئی دیکھنے والا دیکھا
جو یہ کہہ دے کہ ترا حسن سراپا دیکھا
دل آگاہ میں کیا کہیے جگرؔ کیا دیکھا
لہریں لیتا ہوا اک قطرے میں دریا دیکھا
کوئی شائستہ و شایان غم دل نہ ملا
ہم نے جس بزم میں دیکھا اسے تنہا دیکھا
غزل
ہر حقیقت کو بانداز تماشا دیکھا
جگر مراد آبادی