ہر گھڑی مجھ کو بے قرار نہ کر
زندگی میری سوگوار نہ کر
جس کے ساحل کا کچھ پتا ہی نہیں
ایسی کشتی کو اختیار نہ کر
بے خودی میری بے خودی نہ رہے
اتنا احسان غم گسار نہ کر
اس قدر مجھ پہ التفات و کرم
میرے محسن تو شرمسار نہ کر
پاک کر لے ہوس سے دل پہلے
کون کہتا ہے تجھ کو پیار نہ کر
اپنے وعدے کا رکھ بھرم اے دوست
کشت امید ریگ زار نہ کر
خیر خواہی کے نام پر ہرگز
میرے عیبوں کا اشتہار نہ کر
آدمی ہے تو آدمی ہی رہ
آدمیت کو داغ دار نہ کر
جو سحرؔ دل سے بھول بیٹھا ہو
تذکرہ اس کا بار بار نہ کر

غزل
ہر گھڑی مجھ کو بے قرار نہ کر
سحر محمود