EN हिंदी
ہر ایک رستۂ پایاب سے نکلنا ہے | شیح شیری
har ek rasta-e-payab se nikalna hai

غزل

ہر ایک رستۂ پایاب سے نکلنا ہے

طاہر عدیم

;

ہر ایک رستۂ پایاب سے نکلنا ہے
سراب عمر کے ہر باب سے نکلنا ہے

سر عناصر کمیاب سے نکلنا ہے
شمار نادر و نایاب سے نکلنا ہے

طویل تر سے کسی خواب میں اترنے کو
ہر ایک شخص کو اس خواب سے نکلنا ہے

لہو لہو سر مژگاں طلوع ہونا ہے
کنار خطۂ پر آب سے نکلنا ہے

اسے بھی پردۂ تہذیب کو گرانا ہے
مجھے بھی پیکر نایاب سے نکلنا ہے

سکون لمحۂ بھاری نے ہی اگلنا ہے
تو چین عرصۂ بے تاب سے نکلنا ہے

نہیں ہے رہنا اسے بھی بہار میں طاہرؔ
مجھے بھی موسم شاداب سے نکلنا ہے