EN हिंदी
ہر ایک لمحہ طبیعت پہ بار ہے، کیا ہے | شیح شیری
har ek lamha tabiat pe bar hai, kya hai

غزل

ہر ایک لمحہ طبیعت پہ بار ہے، کیا ہے

نکہت بریلوی

;

ہر ایک لمحہ طبیعت پہ بار ہے، کیا ہے
تمہارا غم کہ غم روزگار ہے، کیا ہے

وہ ہم پہ آج بہت جلوہ بار ہے کیا ہے
اب اس ادا میں عداوت ہے، پیار ہے، کیا ہے

ستم تو یہ ہے کہ اس عہد جبر میں بھی یہاں
ملول ہے نہ کوئی بے قرار ہے، کیا ہے

ہزار رنگ بد اماں سہی مگر دنیا
بس ایک سلسلۂ اعتبار ہے، کیا ہے

فضا چمن کی ہے ایسی کہ کچھ نہیں کھلتا
خزاں کی رت ہے کہ فصل بہار ہے، کیا ہے

سنا ہے رات تو کب کی گزر گئی لیکن
ہمیں سحر کا ابھی انتظار ہے، کیا ہے

چمن ہمارا ہے لیکن چمن ہمارا نہیں
نہ بے بسی نہ کوئی اختیار ہے، کیا ہے

بتائے جاتے ہیں عنواں نئے نئے نکہتؔ
مگر تماشہ وہی وہی بار بار ہے، کیا ہے