ہر ایک درد کو حرف غزل بنا دوں گا
چلا تو ہوں کہ تری رہ گزر دکھا دوں گا
غم حیات مرے ساتھ ساتھ ہی رہنا
پیمبری سے ترا سلسلہ ملا دوں گا
اگر وہاں بھی تری آہٹیں نہ سن پاؤں
تو آرزو کی حسیں بستیاں جلا دوں گا
نہ انتظار نہ آہیں نہ بھیگتی راتیں
خبر نہ تھی کہ تجھے اس طرح بھلا دوں گا
کچھ اور تیرگی شام غم سہی جامیؔ
کچھ اور اپنے چراغوں کی لو بڑھا دوں گا
غزل
ہر ایک درد کو حرف غزل بنا دوں گا
خورشید احمد جامی