ہر ایک چیز میسر سوائے بوسہ ہے
اور اپنے غم کا سبب التوائے بوسہ ہے
بھلے تو لگتے ہیں انکار بوسہ پر بھی یہ ہونٹ
کبھی تو یہ کہو ''یہ لب برائے بوسہ'' ہے
مرے قریب سے ہونٹوں کو مت گزار اتنا
کہ چل رہی مرے سر میں ہوائے بوسہ ہے
چھپایا کر نہیں ہونٹوں کو مسکراتے ہوئے
یہ جائے شرم نہیں ہے یہ جائے بوسہ ہے
لب خموش پہ بھی ہے مرے ہی کام کا حرف
مری مراد یہ بھی ہے جو پائے بوسہ ہے
سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ بولتی ہو کیا
لبوں پہ کھیلتی پھرتی ندائے بوسہ ہے
یہی نہ چھوڑ کے جا تشنہ کام ہونٹوں پر
کہ یہ تو بوسۂ سہو قضائے بوسہ ہے
تمہاری خوش دہنی سے ہے اصل میں سروکار
یہ لب کا بوسہ تو بس ابتدائے بوسہ ہے
بس ایک بوسۂ صبح اور ایک بوسۂ شام!
فقیر بوسہ ہوں اور التجائے بوسہ ہے
لبان بوسہ چشیدہ بھی خوب ہیں لیکن
نگہ میں ایک بت ناخدائے بوسہ ہے

غزل
ہر ایک چیز میسر سوائے بوسہ ہے
سید کاشف رضا