ہر دعا ہوگی بے اثر نہ سمجھ
آج ناحق ہے آنکھ تر نہ سمجھ
زیست مشکل سہی مگر اے دوست
موت آسان رہ گزر نہ سمجھ
حوصلہ رکھ تو رہرو منزل
تھک کے رستے کو اپنا گھر نہ سمجھ
پوجتا ہوں میں پتھروں کے صنم
میرے دل میں ہے کوئی ڈر نہ سمجھ
جا بہ جا سن تو میری سرگوشی
میں فضا میں ہوں منتشر نہ سمجھ
جن چراغوں کی لو بہت کم ہے
ان چراغوں کو معتبر نہ سمجھ
میں تہی دست مفلس و نادار
تو مجھے دست بے ہنر نہ سمجھ
میں ہوں قائل تری پرستش کا
تجھ سے مانگوں گا میں گہر نہ سمجھ
تیری دستک کا منتظر انجمؔ
شہر میں ہوگا کوئی در نہ سمجھ
غزل
ہر دعا ہوگی بے اثر نہ سمجھ
آنند سروپ انجم