ہر چند گام گام حوادث سفر میں ہیں
وہ خوش نصیب ہیں جو تری رہ گزر میں ہیں
تاکید ضبط عہد وفا اذن زندگی
کتنے پیام اک نگہ مختصر میں ہیں
ماضی شریک حال ہے کوشش کے باوجود
دھندلے سے کچھ نقوش ابھی تک نظر میں ہیں
للہ اس خلوص سے پرسش نہ کیجیئے
طوفان کب سے بند مری چشم تر میں ہیں
منزل تو خوش نصیبوں میں تقسیم ہو چکی
کچھ خوش خیال لوگ ابھی تک سفر میں ہیں
محفل میں ان کی سمت نگاہیں نہ اٹھ سکیں
ہم بالخصوص اہل نظر کی نظر میں ہیں
یہ کیسے راہرو تھے کہ ہر نقش پا کے ساتھ
سجدوں کے کچھ نشان بھی اس رہ گزر میں ہیں
غزل
ہر چند گام گام حوادث سفر میں ہیں
اقبال عظیم