ہر چند اپنے عکس کا دل دردمند ہو
آئینے کے لبوں پہ اگر زہر خند ہو
بے مہر آفتاب کا دروازہ بند ہو
آندھی ذرا تھمے تو گھٹا سر بلند ہو
ہر لمحہ اس کی مدح سرائی نہ کیجیے
ممکن ہے ایسی بات اسے نا پسند ہو
ہر گام حوصلوں کا یہی مدعا رہا
گمراہ زندگی کی مسافت دو چند ہو
اخترؔ میں اختلاف کا قائل نہیں مگر
احباب کا مزاج ہی جب شر پسند ہو

غزل
ہر چند اپنے عکس کا دل دردمند ہو
سلطان اختر