ہر بات یہاں بات بڑھانے کے لیے ہے
یہ عمر جو دھوکا ہے تو کھانے کے لیے ہے
یہ دامن حسرت ہے وہی خواب گریزاں
جو اپنے لیے ہے نہ زمانے کے لیے ہے
اترے ہوئے چہرے میں شکایت ہے کسی کی
روٹھی ہوئی رنگت ہے منانے کے لیے ہے
غافل تری آنکھوں کا مقدر ہے اندھیرا
یہ فرش تو راہوں میں بچھانے کے لیے ہے
گھبرا نہ ستم سے نہ کرم سے نہ ادا سے
ہر موڑ یہاں راہ دکھانے کے لیے ہے

غزل
ہر بات یہاں بات بڑھانے کے لیے ہے
محبوب خزاں