EN हिंदी
ہر بات یہاں بات بڑھانے کے لیے ہے | شیح شیری
har baat yahan baat baDhane ke liye hai

غزل

ہر بات یہاں بات بڑھانے کے لیے ہے

محبوب خزاں

;

ہر بات یہاں بات بڑھانے کے لیے ہے
یہ عمر جو دھوکا ہے تو کھانے کے لیے ہے

یہ دامن‌ حسرت ہے وہی خواب گریزاں
جو اپنے لیے ہے نہ زمانے کے لیے ہے

اترے ہوئے چہرے میں شکایت ہے کسی کی
روٹھی ہوئی رنگت ہے منانے کے لیے ہے

غافل تری آنکھوں کا مقدر ہے اندھیرا
یہ فرش تو راہوں میں بچھانے کے لیے ہے

گھبرا نہ ستم سے نہ کرم سے نہ ادا سے
ہر موڑ یہاں راہ دکھانے کے لیے ہے