EN हिंदी
ہر آشنا سے اس بن بیگانہ ہو رہا ہوں | شیح شیری
har aashna se us bin begana ho raha hun

غزل

ہر آشنا سے اس بن بیگانہ ہو رہا ہوں

فائز دہلوی

;

ہر آشنا سے اس بن بیگانہ ہو رہا ہوں
مجلس میں شمع رو کی پروانہ ہو رہا ہوں

مجھ کو ملامت خلق خاطر میں ناہیں ہرگز
زلفاں کی فکر میں میں دیوانہ ہو رہا ہوں

ساقی شراب و ساغر اب چاہتا نہیں ہوں
اس کے خیال سوں میں مستانہ ہو رہا ہوں

اس کے خیال سوں میں تنہا نشیں ہوں دائم
وحشی سا میں سبن سوں بیگانہ ہو رہا ہوں

دیکھ اس کی لٹ کا پھاندا بھولا ہوں آب و دانہ
فائزؔ اسیر اس کا بے دانہ ہو رہا ہوں