ہر آن ایک نیا امتحان سر پر ہے
زمین زیر قدم آسمان سر پر ہے
دہائی دیتی ہیں کیسی ہری بھری فصلیں
کسی غنیم کی صورت لگان سر پر ہے
میں خاندان کے سر پر ہوں بادلوں کی مثال
سو بجلیوں کی طرح خاندان سر پر ہے
قدم جماؤں تو دھنستے ہیں ریگ سرخ میں پاؤں
جو سر اٹھاؤں تو نیلی چٹان سر پر ہے
میں جانتا ہوں ٹلے گا یہ جان ہی لے کر
رہ فرار نہیں میہمان سر پر ہے
اک اور وصل سخن اور اک وصال نگاہ
مفارقت کی گھڑی میری جان! سر پر ہے
غزل
ہر آن ایک نیا امتحان سر پر ہے
شبنم رومانی