ہر آئنہ نے کہا رخصت غبار کے بعد
یہاں تو کچھ بھی نہیں ہے جمال یار کے بعد
زمانہ زیر نگیں تھا رضائے یار کے بعد
وہ اختیار ملا ترک اختیار کے بعد
یہ مانتا ہوں ادب شرط عشق ہے لیکن
یہ ہوش کس کو رہے گا نگاہ یار کے بعد
پروں سے منہ کو چھپا کر قفس میں آ بیٹھا
چمن کا حال نہ دیکھا گیا بہار کے بعد
ترے جمال کو سمجھے طلسم غنچہ و گل
فریب کھائے بہت ہم نے اعتبار کے بعد
وہ جام جام نہیں حاصل دو عالم ہے
جو دست شوق میں آیا ہے انتظار کے بعد
غم فراق کی منزل رئیسؔ ختم ہوئی
اب آگے جلوے ہی جلوے ہیں ہجر یار کے بعد

غزل
ہر آئنہ نے کہا رخصت غبار کے بعد
رئیس نیازی