EN हिंदी
حقیقتوں کا نئی رت کی ہے ارادہ کیا | شیح شیری
haqiqaton ka nai rut ki hai irada kya

غزل

حقیقتوں کا نئی رت کی ہے ارادہ کیا

اظہر عنایتی

;

حقیقتوں کا نئی رت کی ہے ارادہ کیا
کہانیوں ہی میں لے سانس شاہزادہ کیا

یہ رنگ زار ہے اپنا پروں پہ تتلی کے
دھنک ہو خود میں تو پھولوں سے استفادہ کیا

محبتوں میں یہ رسوائیاں تو ہوتی ہیں
شرافتیں تری کیا میرا خانوادہ کیا

اگر وہ پھینک دے کشکول اپنے ورثے کا
تو اس جہاں میں کرے بھی فقیر زادہ کیا

ضدیں تو شان ہوا کرتی ہیں رئیسوں کی
جو چوتھی سمت نہ جائے وہ شاہزادہ کیا

یہ میرے نقش یہ میری شرافتیں اظہرؔ
اب اور چاہئے اس سے مجھے زیادہ کیا