حقیقت زیست کی سمجھا نہیں ہے
وہ اپنے دشت سے گزرا نہیں ہے
اندھیرے رقص کرتے ہیں مسلسل
کہ سورج رات کو آتا نہیں ہے
کرے گا خود کشی ہی ایک دن وہ
سکوں جس ذہن کو ملتا نہیں ہے
اٹھائے گھومتی ہے زرد پتے
ہوا سے اور کچھ چلتا نہیں ہے
نہ ڈوبو شمع میں پروانو تم، یہ
دہکتی آگ ہے دریا نہیں ہے
امنگوں کی کئی ندیاں ہیں اس میں
سمندر ہے یہ دل صحرا نہیں ہے
یہ جو آتش فشاں ہے مجھ میں سیماؔ
دہکتا رہتا ہے بجھتا نہیں ہے
غزل
حقیقت زیست کی سمجھا نہیں ہے
سیما شرما میرٹھی