ہنستے ہوئے حروف میں جس کو ادا کروں
بچوں سے کس جہاں کی کہانی کہا کروں
یا رب عذاب حرف و تخیل سے دے نجات
غزلیں کہا کروں نہ مضامیں لکھا کروں
قدموں میں کس کے ڈال دوں یہ نام یہ نسب
کچھ تو بتاؤ کس کا قصیدہ پڑھا کروں
اب تک تو اپنے آپ سے پیچھا نہ چھٹ سکا
ممکن ہے کل سے آپ کے حق میں دعا کروں
کتنی نئی زبان ہو کیسا نیا سخن
اس عہد کو تو دیکھ لوں غالبؔ کو کیا کروں
شہپرؔ مری حدوں کا تعین کرے کوئی
آنکھوں سے بہہ رہوں کہ رگوں میں پھرا کروں
غزل
ہنستے ہوئے حروف میں جس کو ادا کروں
شہپر رسول