EN हिंदी
ہم راہ مرے کوئی مسافر نہ چلا تھا | شیح شیری
hamrah mere koi musafir na chala tha

غزل

ہم راہ مرے کوئی مسافر نہ چلا تھا

شبنم شکیل

;

ہم راہ مرے کوئی مسافر نہ چلا تھا
دھوکا مجھے خود اپنی ہی آہٹ سے ہوا تھا

مسدود ہوئی جس کی ہر اک راہ سراسر
اس صف میں مجھے لا کے کھڑا کس نے کیا تھا

جنبش ہی سے ہونٹوں کی جو کچھ سمجھو تو سمجھو
اس گنگ محل میں تو بس اتنا ہی روا تھا

تعمیر ہوئے گھر تو گئے جانے کہاں وہ
جن خانہ بدوشوں کا یہاں خیمہ لگا تھا

دھندلائے خد و خال گر اس کے تو عجب کیا
دیکھے ہوئے یوں بھی اسے یگ بیت گیا تھا

شب شعلہ بداماں تو سحر سوختہ ساماں
دو روپ بدلتا تھا عجب وہ بھی دیا تھا