ہمیشہ ظلم کے منظر ہمیں دکھائے گئے
پہاڑ توڑے گئے اور محل بنائے گئے
طلوع صبح کی افواہ اتنی عام ہوئی
کہ نصف شب کو گھروں کے دیے بجھائے گئے
اب ایک بار تو قدرت جواب دہ ٹھہرے
ہزار بار ہم انسان آزمائے گئے
فلک کا طنطنہ بھی ٹوٹ کر زمیں پہ گرا
ستون ایک گھروندے کے جب گرائے گئے
تری خدائی میں شامل اگر نشیب بھی ہیں
تو پھر کلیم سر طور کیوں بلائے گئے
یہ آسماں تھے کہ آئینے تھے خلاؤں میں
مہہ و نجوم میں جھانکا تو ہم ہی پائے گئے
دراز شب میں کوئی اپنا ہم سفر ہی نہ تھا
مگر ندیمؔ صدائیں تو ہم لگائے گئے
غزل
ہمیشہ ظلم کے منظر ہمیں دکھائے گئے
احمد ندیم قاسمی