ہمیشہ زندگی کی ہر کمی کو جیتے رہتے ہیں
جسے ہم جی نہیں پاے اسی کو جیتے رہتے ہیں
ہمارے دکھ کی بارش کو کوئی دامن نہیں ملتا
ہماری آنکھ کے بادل نمی کو جیتے رہتے ہیں
کسی کے ساتھ ہیں رسمیں کسی کے ساتھ ہیں قسمیں
کسی کے ساتھ جینا ہے کسی کو جیتے رہتے ہیں
ہمیں معلوم ہے اک دن بھروسہ ٹوٹ جائے گا
مگر پھر بھی سرابوں میں ندی کو جیتے رہتے ہیں
ہمارے ساتھ چلتی ہے تمہارے پیار کی خوشبو
لگائی تھی جو تم نے اس لگی کو جیتے رہتے ہیں
چہکتے گھر مہکتے کھیت اور وہ گاؤں کی گلیاں
جنہیں ہم چھوڑ آئے ان سبھی کو جیتے رہتے ہے
خدا کے نام لیوا ہم بھی ہیں تم بھی ہو اور وہ بھی
مگر افسوس سب اپنی خودی کو جیتے رہتے ہیں
غزل
ہمیشہ زندگی کی ہر کمی کو جیتے رہتے ہیں
آلوک شریواستو