EN हिंदी
ہمارے ہاتھ میں کب ساغر شراب نہیں | شیح شیری
hamare hath mein kab saghar-e-sharab nahin

غزل

ہمارے ہاتھ میں کب ساغر شراب نہیں

اختر شیرانی

;

ہمارے ہاتھ میں کب ساغر شراب نہیں
ہمارے قدموں پہ کس روز ماہتاب نہیں

جہاں میں اب کوئی صورت پئے ثواب نہیں
وہ مے کدے نہیں ساقی نہیں شراب نہیں

شب بہار میں زلفوں سے کھیلنے والے
ترے بغیر مجھے آرزوئے خواب نہیں

چمن میں بلبلیں اور انجمن میں پروانے
جہاں میں کون غم عشق سے خراب نہیں

غم آہ عشق کے غم کا کوئی نہیں موسم
بہار ہو کہ خزاں کب یہ اضطراب نہیں

امید پرسش احوال ہو تو کیوں کر ہو
سلام کا بھی تری بزم میں جواب نہیں

وطن کا چھیڑ دیا کس نے تذکرہ اخترؔ
کہ چشم شوق کو پھر آرزوئے خواب نہیں