ہمارے عزم سفر کے آگے سوال لیل و نہار کیا ہے
غم محبت اٹھا لیا ہے تو گردش روزگار کیا ہے
امید فردا پہ جینے والو حیات کا اعتبار کیا ہے
اٹھو کہ منزل بلا رہی ہے چلو کہ اب انتظار کیا ہے
بکھرتے پھولوں نہ ہم سے پوچھو ہمیں تو اب یاد ہی نہیں ہے
چلو یہ اہل چمن سے پوچھیں سکون کیا ہے قرار کیا ہے
مری نگاہوں میں پھر رہا ہے ترا تکلم ترا تبسم
مری نگاہوں سے کوئی پوچھے یہ پھول کیا ہے بہار کیا ہے
نظر سے دامن بچا بچا کے میں دل کو عارف بنا رہا ہوں
تمہارے جلووں کی منزلوں میں نگاہ کا اعتبار کیا ہے
بہار گل میں قدم قدم پر شعور کامل کی ہے ضرورت
بہار ان کے لئے خزاں ہے جو یہ نہ سمجھے بہار کیا ہے

غزل
ہمارے عزم سفر کے آگے سوال لیل و نہار کیا ہے
شارب لکھنوی