EN हिंदी
ہمارے عذابوں کا کیا پوچھتے ہیں | شیح شیری
hamare azabon ka kya puchhte hain

غزل

ہمارے عذابوں کا کیا پوچھتے ہیں

رزاق ارشد

;

ہمارے عذابوں کا کیا پوچھتے ہیں
کبھی آپ کمرے میں تنہا رہے ہیں

یہ تنہائی بھی ایک ہی ساحرہ ہے
میاں اس کی قدرت میں سو وسوسے ہیں

ہوئے ختم سگریٹ اب کیا کریں ہم
ہے پچھلا پہر رات کے دو بجے ہیں

چلو چند پل موند لیں اپنی پلکیں
یوں جیسے کہ ہم واقعی سو گئے ہیں

ذرا یہ بھی سوچیں کہ راتوں کو اکثر
بھلا کتے گلیوں میں کیوں بھونکتے ہیں

جھگڑتی ہیں بلوں سے سب بلّیاں کیا
اذیت میں لذت کے پہلو چھپے ہیں

ہوئیں ختم ارشدؔ تمہاری سزائیں
پرندے رہائی کا در کھولتے ہیں