ہمارا تو کوئی سہارا نہیں ہے
خدا ہے تو لیکن ہمارا نہیں ہے
محبت کی تلخی گوارا ہے لیکن
حقیقت کی تلخی گوارا نہیں ہے
مری زندگی وہ خلا ہے کہ جس میں
کہیں دور تک کوئی تارا نہیں ہے
خدا کیا خودی کو بھی آواز دی ہے
مصیبت میں کس کو پکارا نہیں ہے
سراب اک حقیقت ہے آب اک تصور
یہی زندگی ہے تو چارا نہیں ہے
ہم اپنی ہی آنکھوں کا پردہ الٹ دیں
حقیقت کو یہ بھی گوارا نہیں ہے
وہ کیا ان کے گیسو سنوارے گا جس نے
گریباں بھی اپنا سنوارا نہیں ہے
خدا اس سے نپٹے تو نپٹے کہ یہ دل
ہمارا نہیں ہے تمہارا نہیں ہے
نظر ان کی گوشہ نشیں ہے حیا سے
اشارا نہیں یہ اشارا نہیں ہے
ہمارا ہے کیا جب ہمارا ارادہ
ہمارا ہے لیکن ہمارا نہیں ہے
گریباں بہت سے ہوئے پارہ پارہ
نقاب ایک بھی پارہ پارا نہیں ہے
کسی کے لیے دل کو سلگا کے دیکھو
جہنم کوئی استعارا نہیں ہے
بجز مظہریؔ کے سبھی بزم میں ہیں
وہی تیرے وعدوں کا مارا نہیں ہے
غزل
ہمارا تو کوئی سہارا نہیں ہے
جمیلؔ مظہری