ہمارا عشق سلامت ہے یعنی ہم ابھی ہیں
وہی شدید اذیت ہے یعنی ہم ابھی ہیں
اسی پرانی کہانی میں سانس لیتے ہیں
وہی پرانی محبت ہے یعنی ہم ابھی ہیں
نہ جانے کب سے در داستاں پہ بیٹھے ہیں
اور انتظار کی ہمت ہے یعنی ہم ابھی ہیں
طلب کے کرب میں اک مرگ کے دعا گو تھے
طلب میں ویسی ہی شدت ہے یعنی ہم ابھی ہیں
کسی کے نام پہ ہم دوستی نبھاتے تھے
اور اب بھی ویسی ہی شہرت ہے یعنی ہم ابھی ہیں
طلب بڑھاتی چلی جا رہی ہے اپنی ہوس
سو قدرے خام قناعت ہے یعنی ہم ابھی ہیں
کلام میرؔ کے صدقے میں شعر ہوتے ہیں
جو بیت ہے سو قیامت ہے یعنی ہم ابھی ہیں
عجب یہ شعر ہیں اپنے کہ جن میں ہم بھی نہیں
بس ایک غم کی شرارت ہے یعنی ہم ابھی ہیں
یہ عشق پیشگی دار و رسن کے ہنگامے
یہ رنگ زندہ سلامت ہے یعنی ہم ابھی ہیں
امیر شہر ہے بے چین شیخ خوف زدہ
ابھی تلک یہ عداوت ہے یعنی ہم ابھی ہیں
نہ پوری ہے نہ ادھوری یہ داستان الم
کوئی سنی سی حکایت ہے یعنی ہم ابھی ہیں
غزل
ہمارا عشق سلامت ہے یعنی ہم ابھی ہیں
احمد عطا