ہم تلخیٔ حیات کو آساں نہ کر سکے
صحرائی زندگی کو گلستاں نہ کر سکے
تھا زعم جن کو اپنی مسیحائی کا یہاں
وہ بھی علاج سوزش پنہاں نہ کر سکے
وارفتگئ شوق میں شل ہو گئے بدن
عابد طواف کوچۂ جاناں نہ کر سکے
کچھ یوں چلی تھی باد حوادث کہ کہ عمر بھر
قندیل آرزو کو فروزاں نہ کر سکے
آلام عاشقی نے کیا خود سے بے خبر
ہم تذکرۂ سختئ دوراں نہ کر سکے
ایسا چبھا ہے نشتر بیداد آرزو
ہم زندگی میں پھر کوئی ارماں نہ کر سکے
باد نسیم اب کے مظفرؔ عجیب تھی
ہم اہتمام صبح بہاراں نہ کر سکے

غزل
ہم تلخیٔ حیات کو آساں نہ کر سکے
مظفر احمد مظفر