ہم شہر میں اک شمع کی خاطر ہوئے برباد
لوگوں نے کیا چاند کے صحراؤں کو آباد
ہر سمت فلک بوس پہاڑوں کی قطاریں
خسروؔ ہے نہ شیریںؔ ہے نہ تیشہ ہے نہ فرہاد
برسوں سے یہی خواب ہیں نیندوں کی سجاوٹ
گلشن ہے مگر گل ہے نہ بلبل ہے نہ صیاد
ہوں طائر بے بام چراغ سر صحرا
امید کرم ہے نہ مجھے شکوۂ بیداد
جس گھر کو بسایا تھا مری بے خبری نے
آج اس کو تری خود نگری کر گئی برباد
کچھ ایسا دھواں ہے کہ گھٹی جاتی ہیں سانسیں
اس رات کے بعد آؤ گے شاید نہ کبھی یاد
ہر ذرہ ہے مدفن مری حیرت نگہی کا
یا رب! یہ گلی کوچے ہمیشہ رہیں آباد
کل اپنی بھی تصویر نہ پہچان سکیں گے
اس دور کو بخشے گئے وہ مانیؔ وہ بہزادؔ
سنسان ہے زنداں بھی بسان دل شاعر
نے شور سلاسل ہے نہ ہنگامۂ فریاد
خورشید قیامت اتر آئے رگ جاں میں
اے نغمہ گرو ایسی کوئی طرز ہو ایجاد
شہرتؔ کہ ہے اب وجہ پریشانیٔ احباب
اٹھ جائے گا جس روز تو آئے گا بہت یاد
غزل
ہم شہر میں اک شمع کی خاطر ہوئے برباد
شہرت بخاری