EN हिंदी
ہم سے پوچھا کیا بیتی ہے آخر شب کے ماروں پر | شیح شیری
humse puchha kya biti hai aaKHir-e-shab ke maron par

غزل

ہم سے پوچھا کیا بیتی ہے آخر شب کے ماروں پر

عشرت قادری

;

ہم سے پوچھا کیا بیتی ہے آخر شب کے ماروں پر
صحرا صحرا رنگ بکھیرے رقص کیا انگاروں پر

اک سایہ شرماتا لجاتا راہ میں تنہا چھوڑ گیا
میں پرچھائیں ڈھونڈ رہا ہوں ٹوٹی ہوئی دیواروں پر

سرگشتہ تھے موج ہوا سے بیت گیا وہ موسم تو ہم
برگ خزاں کی مانند اب آوارہ ہیں کہساروں پر

بھولی بسری یادیں آ کر سرگوشی کرتی ہیں
پھر سے کوئی گیت سناؤ دل کے شکستہ تاروں پر