ہم روایت کے سانچے میں ڈھلتے بھی ہیں
اور طرز کہن کو بدلتے بھی ہیں
جادۂ عام پر بھی ہے اپنی نظر
جادۂ عام سے بچ کے چلتے بھی ہیں
راہبانہ قناعت کے خوگر سہی
والہانہ کبھی ہم مچلتے بھی ہیں
دامن نشہ دیتے نہیں ہات سے
رند گرتے بھی ہیں اور سنبھلتے بھی ہیں
یوں تو اخفائے غم کا نمونہ ہیں ہم
دوسروں کے لیے ہات ملتے بھی ہیں
کچھ یہ ہے مصلحت کیش ہم بھی نہیں
کچھ یہ اہل ریا ہم سے جلتے بھی ہیں
ناز کیا اس قدر عارضی حسن پر
شہریاروں کے سکے بدلتے بھی ہیں

غزل
ہم روایت کے سانچے میں ڈھلتے بھی ہیں
یوسف جمال