ہم قتل کب ہوئے یہ پتا ہی نہیں چلا
انداز تھا عجب کہ وہ خنجر عجیب تھا
امید باریابی تو مجھ کو نہ تھی مگر
ساحل پہ آ گیا میں سمندر عجیب تھا
دم بھر کو بھی نگاہ نہ چہرے پہ ٹک سکی
اس پیکر جمال کا تیور عجیب تھا
تنہا بھی رہ کے ہم کبھی تنہا نہیں ہوئے
ہم راہ اس کی یادوں کا دفتر عجیب تھا
ہم دم گمان ہوتا تھا پھولوں کی سیج کا
خاروں سے وہ سجا ہوا بستر عجیب تھا
ہم محو جستجو تھے سحرؔ مستقل مگر
منزل ملی نہ پھر بھی مقدر عجیب تھا

غزل
ہم قتل کب ہوئے یہ پتا ہی نہیں چلا
سحر محمود