EN हिंदी
ہم نیں سجن سنا ہے اس شوخ کے دہاں ہے | شیح شیری
hum nin sajan suna hai us shoKH ke dahan hai

غزل

ہم نیں سجن سنا ہے اس شوخ کے دہاں ہے

آبرو شاہ مبارک

;

ہم نیں سجن سنا ہے اس شوخ کے دہاں ہے
لیکن کبھو نہ دیکھا کیتا ہے اور کہاں ہے

ڈھونڈا ہزار تو بھی تیرا نشاں نہ پایا
لشکر میں گل رخاں کے تیری مثل کہاں ہے

اب تشنگی کا روزہ شاید کھلے ہمارا
شام و شفق سجن کا مسی و رنگ پاں ہے

دل میں کیا ہے دعوا انکھیاں ہوئی ہیں منکر
تیری کمر کا جھگڑا ان دو کے درمیاں ہے

رہتا ہوں اے پیارے قدموں تلے تمہارے
جس راہ آوتے ہو عاجز کا وہیں مکاں ہے

تجھ خط پشت لب میں تس کا سخن ہوا سبز
اس کی زباں دہن میں مانند برگ پاں ہے

پیری سیں قد کماں ہے ہر چند آبروؔ کا
اس نوجواں کی خاطر دل اب تلک کشاں ہے