ہم نے کس رات نالہ سر نہ کیا
پر اسے آہ کچھ اثر نہ کیا
سب کے ہاں تم ہوئے کرم فرما
اس طرف کو کبھو گزر نہ کیا
کیوں بھویں تانتے ہو بندہ نواز
سینہ کس وقت میں سپر نہ کیا
کتنے بندوں کو جان سے کھویا
کچھ خدا کا بھی تو نے ڈر نہ کیا
دیکھنے کو رہے ترستے ہم
نہ کیا رحم تو نے پر نہ کیا
آپ سے ہم گزر گئے کب کے
کیا ہے ظاہر میں گو سفر نہ کیا
کون سا دل ہے وہ کہ جس میں آہ
خانہ آباد تو نے گھر نہ کیا
تجھ سے ظالم کے سامنے آیا
جان کا میں نے کچھ خطر نہ کیا
سب کے جوہر نظر میں آئے دردؔ
بے ہنر تو نے کچھ ہنر نہ کیا
غزل
ہم نے کس رات نالہ سر نہ کیا
خواجہ میر دردؔ