EN हिंदी
ہم لوگ اپنی راہ کی دیوار ہو گئے | شیح شیری
hum log apni rah ki diwar ho gae

غزل

ہم لوگ اپنی راہ کی دیوار ہو گئے

اشوک مزاج بدر

;

ہم لوگ اپنی راہ کی دیوار ہو گئے
یعنی کہ مصلحت میں گرفتار ہو گئے

اب تو بلند اور ذرا حوصلہ کرو
پتھر جو میل کے تھے وہ دیوار ہو گئے

طوفاں میں ہم کو چھوڑ کے جانے کا شکریہ
اب اپنے ہاتھ پاؤں ہی پتوار ہو گئے

گھر کو گرانے والے سیاسی مزاج تھے
غم میں شریک ہو کے وہ غم خوار ہو گئے

پردے کی بات پردے پہ کھل کر جو آ گئی
بچے سمے سے پہلے سمجھ دار ہو گئے

اتنی ذرا سی بات پہ حیران ہے مزاج
کاغذ کے پھول کیسے مہک دار ہو گئے