ہم کوئی نادان نہیں کہ بچوں کی سی بات کریں
جینا کوئی کھیل نہیں ہے بیٹھو تک کی بات کریں
شیو تو نہیں ہم پھر بھی ہم نے دنیا بھر کے زہر پئے
اتنی کڑواہٹ ہے منہ میں کیسے میٹھی بات کریں
ہم نے سب کو مفلس پا کے توڑ دیا دل کا کشکول
ہم کو کوئی کیا دے دے گا کیوں منہ دیکھی بات کریں
ہم نے کب یہ گر سیکھا ہم ٹھہرے سیدھے سادے لوگ
جس کی جیسی فطرت دیکھیں اس سے ویسی بات کریں
غزل
ہم کوئی نادان نہیں کہ بچوں کی سی بات کریں
عزیز بانو داراب وفا