ہم کہاں کنج نشینوں میں رہے
آسمانوں میں زمینوں میں رہے
راہیں بے وجہ منور نہ ہوئیں
رات خورشید جبینوں میں رہے
تھا فلک گیر تلاطم شب کا
ہم ستاروں کے سفینوں میں رہے
جسم سے سانپ نکل آتے ہیں
ایک دو پل ہی دفینوں میں رہے
تم کو اصرار ہے خالی یہ مکاں
ہم شب و روز مکینوں میں رہے
سبز دائم شجر حرف اگے
عمر بھر شورہ زمینوں میں رہے

غزل
ہم کہاں کنج نشینوں میں رہے
حامدی کاشمیری