EN हिंदी
ہم کہاں آئنہ لے کر آئے | شیح شیری
hum kahan aaina le kar aae

غزل

ہم کہاں آئنہ لے کر آئے

باقی صدیقی

;

ہم کہاں آئنہ لے کر آئے
لوگ اٹھائے ہوئے پتھر آئے

دل کے ملبے میں دبا جاتا ہوں
زلزلے کیا مرے اندر آئے

جلوہ جلوے کے مقابل ہی رہا
تم نہ آئینے سے باہر آئے

دل سلاسل کی طرح بجنے لگا
جب ترے گھر کے برابر آئے

جن کے سائے میں صبا چلتی تھی
پھر نہ وہ لوگ پلٹ کر آئے

شعر کا روپ بدل کر باقیؔ
دل کے کچھ زخم زباں پر آئے