ہم جوں چکور غش ہیں اجی ایک یار پر
بلبل کی طرح جی نہیں دیتے ہزار پر
گر جی میں کچھ نہیں ہے تو دیکھے ہے کیوں مجھے
انگلی کو پھیر پھیر کے تیغے کی دھار پر
پا بوس یار کی ہمیں حسرت ہے اے نسیم
آہستہ آئیو تو ہمارے مزار پر
رخسار پر نمود ہوا خط خبر بھی ہے
یعنی کمر کسی ہے خزاں نے بہار پر
رنگیںؔ تو لے کے بیٹھے ہیں اسباب عیش سب
آوے بشرط یار بھی اپنے قرار پر
غزل
ہم جوں چکور غش ہیں اجی ایک یار پر
رنگیں سعادت یار خاں