EN हिंदी
ہم جو پہلے کہیں ملے ہوتے | شیح شیری
hum jo pahle kahin mile hote

غزل

ہم جو پہلے کہیں ملے ہوتے

سلمان اختر

;

ہم جو پہلے کہیں ملے ہوتے
اور ہی اپنے سلسلے ہوتے

پھر ہر اک بات ٹھیک سے ہوتی
پھر نہ الجھن نہ فاصلے ہوتے

پھر نہ تنہائی رات کو ڈستی
پھر نہ قسمت سے یہ گلے ہوتے

پھر نہ لگتا یہ شہر اک صحرا
پھر نہ گم دل کے قافلے ہوتے

پھر غزل ہوتی سب زبانوں پر
پھر کسی کے نہ لب سلے ہوتے

پھر ہر اک لمحہ گنگنا اٹھتا
پھر ہر اک سمت گل کھلے ہوتے