ہم جو گزرے ان کی محفل کے قریب
اک کسک سی رہ گئی دل کے قریب
سب کے سب بیٹھے تھے قاتل کے قریب
بے کسی تھی صرف بسمل کے قریب
زندگی کیا تھی عجب طوفان تھی
اب کہیں پہنچے ہیں منزل کے قریب
اس قدر خود رفتۂ صحرا ہوئے
بھول کر دیکھا نہ محمل کے قریب
ہائے اس مختار کی مجبوریاں
جس نے دم توڑا ہو منزل کے قریب
زندگی و موت واحد آئنہ
آدمی ہے حد فاصل کے قریب
یہ تجاہل عارفانہ ہے جناب
بھول کر جانا نہ غافل کے قریب
تربیت کو حسن صحبت چاہیے
بیٹھیے استاد کامل کے قریب
ہوش کی کہتا ہے دیوانہ سدا
اور مایوسی ہے عاقل کے قریب
دیکھیے ان بد نصیبوں کا مآل
وہ جو ڈوبے آ کے ساحل کے قریب
چھائی ہے گلزارؔ میں فصل خزاں
پھول ہیں سب گل شمائل کے قریب
غزل
ہم جو گزرے ان کی محفل کے قریب
گلزار دہلوی