ہم جسے سمجھتے تھے سعیٔ رائیگاں یارو
اب اسی سے ملنا ہے اپنا کچھ نشاں یارو
رک سکے تو ممکن ہے نغمگی میں ڈھل جائے
اٹھ رہی ہے سینوں میں شورش فغاں یارو
کیا خیال ہے تم کو کیا ملال ہے تم کو
پوچھتا کوئی تم سے کیوں ہوں سرگراں یارو
برق سے تصادم کا وقت آ ہی جائے گا
ڈھونڈتے رہو گے تم برق سے اماں یارو
سچ سے پیار کرنے کا حوصلہ نہیں ہے اور
مصلحت کی راہوں سے دل ہے بد گماں یارو
کچھ سرور تو ہوگا کوئی نور تو ہوگا
جس سے ظلمت شب میں دل ہے نغمہ خواں یارو
کم ثبات ہوتی ہے تازگی و رعنائی
دیر تک نہیں رہتا صبح کا سماں یارو
غزل
ہم جسے سمجھتے تھے سعیٔ رائیگاں یارو
فرید جاوید