EN हिंदी
ہم ہیں اور شغل عشق بازی ہے | شیح شیری
hum hain aur shughl-e-ishq-bazi hai

غزل

ہم ہیں اور شغل عشق بازی ہے

شیخ ابراہیم ذوقؔ

;

ہم ہیں اور شغل عشق بازی ہے
کیا حقیقی ہے کیا مجازی ہے

دختر رز نکل کے مینا سے
کرتی کیا کیا زباں درازی ہے

خط کو کیا دیکھتے ہو آئنے میں
حسن کی یہ ادا طرازی ہے

ہندوئے چشم طاق ابرو میں
کیا بنا آن کر نمازی ہے

نذر دیں نفس کش کو دنیا دار
واہ کیا تیری بے نیازی ہے

بت طناز ہم سے ہو ناساز
کارسازوں کی کارسازی ہے

سچ کہا ہے کسی نے یہ اے ذوقؔ
مال موذی نصیب غازی ہے