ہم گردش دوراں کے ستم دیکھ رہے ہیں
بیچارگئ اہل کرم دیکھ رہے ہیں
ہم دل پہ سہے جاتے ہیں ہر تیر جفا کو
ہے کس کا جگر دیکھے جو ہم دیکھ رہے ہیں
ہے یہ تو یقیں بدلے گا انداز زمانہ
فی الحال تو ہم شدت غم دیکھ رہے ہیں
ایثار و مروت ہیں جو تم دیکھ رہے ہو
بیداد و تغافل ہیں جو ہم دیکھ رہے ہیں
ہنس ہنس کے سہے جاتے ہیں ہر تازہ ستم کو
ہم شدت آلام کا دکھ دیکھ رہے ہیں
ہر حلقۂ زنجیر کو یوں چوما نظر نے
ہم جیسے تری زلف کے خم دیکھ رہے ہیں
بیٹھے ہیں ندیمؔ اب بھی لئے حسرت دیدار
پھر سوئے در و بام صنم دیکھ رہے ہیں

غزل
ہم گردش دوراں کے ستم دیکھ رہے ہیں
راج کمار سوری ندیم