ہم اہل غم بھی رکھتے ہیں جادو بیانیاں
یہ اور بات ہے کہ سنیں لن ترانیاں
شرمندہ کر نہ مجھ کو مرا حال پوچھ کر
لے دے کے رہ گئی ہیں یہی بے زبانیاں
کم کیا تھا ہم فقیروں کو آشوب روزگار
کیوں یاد آ رہی ہیں تری مہربانیاں
دامن کے چاک چاک میں ہے موسم بہار
آؤ کہ خون دل سے کریں گلفشانیاں
اہل زمانہ تم بھی بڑے وقت پر ملے
کچھ بار ہو چلی تھیں مری شادمانیاں
تم نے بھلا دیا تو نئی بات کیا ہوئی
رہتی ہیں یاد کس کو وفا کی کہانیاں
جی کھول کر لٹائیں گے اب تیری راہ میں
تیرے بلا کشوں کو ملی ہیں جوانیاں
رکھ لو کہ زندگی میں کبھی کام آئیں گی
دیوانگان عشق کی بھی کچھ نشانیاں
غزل
ہم اہل غم بھی رکھتے ہیں جادو بیانیاں
خلیلؔ الرحمن اعظمی