EN हिंदी
ہیں رواں اس راہ پر جس کی کوئی منزل نہ ہو | شیح شیری
hain rawan us rah par jis ki koi manzil na ho

غزل

ہیں رواں اس راہ پر جس کی کوئی منزل نہ ہو

منیر نیازی

;

ہیں رواں اس راہ پر جس کی کوئی منزل نہ ہو
جستجو کرتے ہیں اس کی جو ہمیں حاصل نہ ہو

دشت نجد یاس میں دیوانگی ہو ہر طرف
ہر طرف محمل کا شک ہو پر کہیں محمل نہ ہو

وہم یہ تجھ کو عجب ہے اے جمال کم نما
جیسے سب کچھ ہو مگر تو دید کے قابل نہ ہو

وہ کھڑا ہے ایک باب علم کی دہلیز پر
میں یہ کہتا ہوں اسے اس خوف میں داخل نہ ہو

چاہتا ہوں میں منیرؔ اس عمر کے انجام پر
ایک ایسی زندگی جو اس طرح مشکل نہ ہو