EN हिंदी
ہیں کس لیے اداس کوئی پوچھتا نہیں | شیح شیری
hain kis liye udas koi puchhta nahin

غزل

ہیں کس لیے اداس کوئی پوچھتا نہیں

وشو ناتھ درد

;

ہیں کس لیے اداس کوئی پوچھتا نہیں
رستہ خود اپنے گھر کا ہمیں سوجھتا نہیں

نقش وفا کسی کا کوئی ڈھونڈھتا نہیں
اہل وفا کا پھر بھی بھرم ٹوٹتا نہیں

اہل ہنر کی بات تھی اہل نظر کے ساتھ
اب تو کوئی بھی ان کی طرف دیکھتا نہیں

ہم سے ہوئی خطا تو برا مانتے ہو کیوں
ہم بھی تو آدمی ہیں کوئی دیوتا نہیں

دامن تمہارا ہاتھ سے جاتا رہا مگر
اک رشتۂ خیال ہے کہ ٹوٹتا نہیں

سورج کے نور پر بھی اندھیروں کا راج ہے
اے دردؔ دور تک مجھے کچھ سوجھتا نہیں